لکھنؤ۔ سماج وادی پارٹی میں انتہا پر پہنچنے والے اختلافات کے درمیان پارٹی
صدر ملائم سنگھ کی طرف سے طلب کردہ آج کی میٹنگ میں ملائم سنگھ نے پارٹی
اور بیٹے کے درمیان پارٹی کو ترجیح دے کر ساری قیاس آرائیوں پر لگام لگا
دی۔ انہوں نے اکھلیش کو پھٹکار لگائی جبکہ شیو پال کو عوامی لیڈر بتایا۔ آج ملائم سنگھ اپنی تقریر کے دوران جذباتی اور غصے سے بھرے نظر آئے۔ انہوں
نے اپنے بیٹے اکھلیش پر کئی طنز کئے۔ انہوں نے کہا کہ جو اپنی تنقید نہیں
سن سکتا وہ لیڈر نہیں ہو سکتا۔ میٹنگ کے آغاز سے ہی اکھلیش کی حمایت میں
نعرے بازی کر رہے وہاں موجود ایس پی کارکنوں کو بھی ملائم سنگھ نے نشانہ
بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مت سمجھئے کہ نوجوان میری حمایت میں نہیں ہیں۔
آج بھی مجھے نوجوانوں کی حمایت حاصل ہے۔ میرے ایک اشارے پر بھی نوجوان کھڑے
ہو جائیں گے۔ سب کو کھدیڑ دیا جائے گا۔
ملائم نے کہا، یہ جو اکھلیش بھیا، اکھلیش بھیا کر رہے ہیں یہ کیا جانیں کہ
ہم نے کتنی لڑائی لڑی ہے۔ جو تنقید نہیں سن سکتا وہ لیڈر نہیں ہو سکتا۔ تم
لوگوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے، ابھی میں تھکا نہیں ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ
نوجوان ہمارے ساتھ نہیں ہیں، اگر میں نے اشارہ کر دیا تو کھدیڑ دیا جائے
گا۔ تم لوگ ہوا میں گھوم رہے ہو، زمین کے لیڈر نہیں ہو۔ شیو پال عوام کے
درمیان کا لیڈر ہے۔ میں پارٹی کے تئیں ان کی قربانی بھلا نہیں سکتا۔ نہ
جانے
کتنے لوگوں کو ہم نے پارٹی کے ساتھ جوڑا ہے۔ پارٹی میں کشیدگی سے
مجھے تکیلف ہوئی ہے۔ آج جو پارٹی میں چل رہا ہے اس سے ناخوش ہوں۔ میں ابھی
کمزور نہیں ہوا ہوں۔ مجرموں کو پارٹی میں نہیں آنے دوں گا۔ مختار انصاری کا
خاندان ایک محترم خاندان ہے۔
ملائم نے کہا، امر سنگھ نے کئی بار بچایا ہے۔ امر سنگھ میرے بھائی ہیں۔ امر
سنگھ اور شیو پال کے خلاف کچھ نہیں سن سکتا۔ تمہاری کیا حیثیت ہے؟ امر
سنگھ کو باہر کرنے کو کہہ رہے ہو؟ امر سنگھ کو گالی دیتے ہو۔ میں اور شیو
پال کبھی الگ نہیں ہو سکتے۔ امر نے جیل جانے سے بچا لیا۔ امر نہیں ہوتے تو
سزا ہو جاتی۔
انہوں نے کہا کہ میں 13 سال کی عمر میں پہلی بار جیل گیا۔ گلیوں میں لوہیا
جی کے حق میں نعرے لگائے جا رہے تھے۔ ایسی لاٹھی چلی کہ سانپ کی طرح پیٹھ
ہو گئی تھی۔ آج جو اچھل رہے ہیں ایک لاٹھی مار دیں تو پتہ نہیں چلے گا۔ ہم
جانتے ہیں کہ کتنی مشکل لڑائی ہے۔ میں نے آپ کو بلایا ہے۔ پارٹی کے لئے بہت
محنت کرنی ہے۔ جو تنقید نہیں سن سکتا وہ باہر جائے۔ نعرے بازی اچھی نہیں
ہے۔ نوجوانوں کو میں نے آگے کیا، نوجوانوں کو ٹکٹ دیا۔ بحران کے وقت زیادہ
بولنے کی ضرورت نہیں۔ جو اپنی تنقید نہیں سن سکتا، وہ لیڈر نہیں بن سکتا۔
کمزوریوں سے لڑنے کی بجائے ہم آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔ کچھ لیڈر چاپلوسی میں
لگے ہوئے ہیں۔ عہدہ ملتے ہی دماغ خراب ہو گیا ہے۔ جواری اور شرابیوں کی
مدد کر رہے ہو۔